ڈئیر سر :-
بات یہ
ہے کہ اگر پچھلے ستر سالوں میں آپ کی سیاست میں دخل اندازی دیگر اداروں اور پالیسی سازی پر کنٹرول سے اگر ملک کسی اچھی پوزیشن پر آ گیا ہوتا تو کوئی بات بھی تھی
بات یہ


لیکن ہوا یہ کہ نہ صرف آدھا ہوا بلکہ الگ ہونے والا آدھا حصہ جس کو بوجھ سمجھا جاتا تھا وہ بھی چار ڈانگ آگے نکل گیا 
جبکہ انڈیا کا مقابلہ ہم معیشت سمیت کسی بھی میدان میں بھی نہیں کر سکتے دنیا میں ہماری کوئی سنتا نہیں
سب سالے ہم کو دہشت گردوں کی پناہ گاہ بتاتے ہیں 



جبکہ انڈیا کا مقابلہ ہم معیشت سمیت کسی بھی میدان میں بھی نہیں کر سکتے دنیا میں ہماری کوئی سنتا نہیں





ایف اے ٹی ایف اور نہ جانے کون کون ہم پر کیا کیا پابندیاں لگا دیتے ہیں اسلامی ملکوں کی مدد آپ نے کشمیر کے حالیہ معاملے میں دیکھ ہی لی کشمیر ہم جنگ سے لے نہیں سکتے مذاکرات انڈیا آپ کی وجہ سے سیاسی لیڈروں سے کرتا نہیں کہ فیصلہ سازی کا اختیار انکے پاس آپ چھوڑتے نہیں





ہمیں یقین ہے کہ آپ میں سے بہت سے اس بات کو سمجھتے ہوں گے کہ ملک جن حالات سے دو چار ہے اسکی بڑی وجہ آپ کی ہر معاملے میں دخل اندازی ہے جس نے اس ملک کو ایک سیکیورٹی اسٹیٹ میں تبدیل کر دیا ہے۔ ظاہر ہے سیکیورٹی اسٹیٹ کیسے معاشی ترقی اور عوامی فلاح کا سوچے گی





ملک کے تمام دیگر اداروں کے سربراہ آپ لوگ خود بنے ہوئے ہیں 
سیاست دانوں کو آپ میڈیا کے ذریعے کرپٹ ثابت کرتے رہتے ہیں اور قوم کو یقین دلاتے رہے ہیں
کہ آپ سب سچے اور دودھ کے دھلے ہیں یہ تو آپ کو بھی پتا ہے کہ آپ دودھ کے دھلے نہیں 



سیاست دانوں کو آپ میڈیا کے ذریعے کرپٹ ثابت کرتے رہتے ہیں اور قوم کو یقین دلاتے رہے ہیں





آپ کو بھی اپنے محکمے میں ایسے معاملات کا سامنا رہتا ہے جو اگر عوام کے سامنے آجائیں تو آپ کو بے انتہا شرمندگی ہو گی
اور مظبوط پروپگینڈے کے ذریعے بنایا گیا آپ کا امیج بری طرح خراب ہو جائے گا ظاہر ہے عوام میں کچھ سمجھدار لوگ بھی ہیں جو آپ کے پروپگینڈے سے متاثر نہیں ہوئے






بلکہ اب آہستہ آہستہ مزید لوگوں کو شعور آتا جا رہا ہے جن کی وجہ سے سمجھدار لوگوں کی تعداد میں دن با دن اضافہ ہو رہا ہے جو باتیں یہ لوگ اٹھا کر لاپتہ کر دیئے جانے یا مار دیئے جانے کے ڈر سے اپنے بند کمروں اور محفلوں میں کرتے ہیں اب انکی کیا تفصیل بتائی جائے





بس اتنا سمجھ لیں کہ کوئی اچھا تاثر نہیں ہے۔ اب ظاہر ہے آپ کے معاملات کا سیاست دانوں کی طرح میڈیا ٹرائل بھی نہیں ہوتا اس لیئے ایسی باتیں آپ تک نہیں پہنچ پاتیں۔
سر میرے خیال میں اب وقت آگیا ہے کی آپ ذرا پیچھے ہٹیں اور عوام کو خود فیصلہ کرنے دیں


سر میرے خیال میں اب وقت آگیا ہے کی آپ ذرا پیچھے ہٹیں اور عوام کو خود فیصلہ کرنے دیں



کہ ان کے ملک میں کون حکومت بنائے یا چلائے اور اس میں آپ کا کوئی عمل دخل نہ ہو۔ ملک کے آئین میں آپ کے محکمے کے جو فرائض بیان ہو چکے ہیں اگر آپ ان تک محدود رہیں تو آپ خود حیران ہوں گے کہ یہ ملک جو تیزی سے بدحالی کا شکار ہوتا جا رہا تھا چند سال میں سنبھل گیا ہے





اور پڑوسیوں کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا ہے- راستہ دیں کیوں کہ ستر سال کی روک نے تو ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ یقین کیجیئے اگر آپ اپنی آئینی حدود میں رہیں گے اور عوام کو اپنی مرضی کے اپنے نمائندے چننے دیں گے





تو چند سالوں میں گراس روٹ لیول سے حقیقی سیاسی قیادت سامنے آئے گی جو حقیقی معنوں میں عوام کی امنگوں کی ترجمانی کرے گی یہ سیاسی قیادت اس قابل ہو گی کہ قومی مفاد کو مد نظر رکھ کر دنیا سے تعلقات قائم کرسکے اور ملک کا بگڑا ہوا امیج بہال کر سکے





مزید یہ کہ عوام کے نمائندے جب 22 کروڑ عوام کی فلاح و بہبود کو مد نظر رکھ کر معاشی یا اقتصادی پالیسیاں بنائیں گے تو آگے چل کر محکمے کا بھی فائدہ ہو گا یہ بات ذہن میں رکھیں کہ ایک ڈوبی ہوئی معیشت آپ کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی لیکن ایک ابھرتی ہوئی معیشت آسانی سے آپ کو پال سکتی ہے